Saturday, 22 June 2013

حساس اثاثوں کی حفاظت پر 25 ہزار اہلکار تعینات ہیں: وزیر خزانہ


حساس اثاثوں کی حفاظت پر 25 ہزار اہلکار تعینات ہیں: وزیر خزانہ
اسحق ڈار نے کہا کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں پوری قوم یکجا ہے اور اس کی حفاظت پر اسٹریٹیجک کمانڈ فورس معمور ہے۔

اسلام آباد- پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ملک کے حساس اثاثوں بشمول جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کے لیے ایک مربوط نظام موجود ہے جو بین الاقوامی طور پر مستند تحفظ اور حفاظت کے معیار پرمکمل طورپورا اترتا ہے۔اُنھوں نے یہ بیان ہفتہ کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر ہونے والی بحث کو سمیٹتے ہوئے دیا۔پچیس ہزار اہلکاروں کی ایک اعلٰی تربیت یافتہ جدید اسلحہ سے لیس مخصوص سکیورٹی فورس اس کی حفاظت پر معمور ہے جدید ترین ساز و سامان ان 25 ہزار لوگوں کے پاس موجود ہے۔وزیرخزانہ نے کہا کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں پوری قوم یکجا ہے اور اس کی حفاظت پر اسٹریٹیجک کمانڈ فورس معمور ہے۔ہم ہر وقت چوکس ہیں اور ہم پر غفلت کا کوئی لمحہ نہیں گزرتا۔ تاہم ایسے حالات اور واقعات کی تیاری کرتے رہتے ہیں جن کا سوچنا بھی مشکل ہے اور ہمارا خطرات کی نشاندہی کرنے کا نظام مستقل بنیادوں پر بلند ترین سطح پر رہتا ہے جو ہر وقت ہمارے زیر غور اور زیر تجربہ رہتا ہے۔وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں یہ بیان دینے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ملک میں بسنے والوں کا اس پروگرام کے تحفظ اور حفاظت سے متعلق کیے جانے والے اقدامات پر اعتماد بڑھے گا۔پاکستان بین الاقوامی برادری کا ایک نہایت ہی ذمہ دار رکن ہے جو مکمل طور پر اس بات کا پابند ہے کہ وہ اس کے حساس اثاثے حفاظت اور تحفظ کے اعلٰی ترین معیار پر پورا اترے اور کسی بھی شخص یا گروہ کو یہ طاقت حاصل نہیں ہو گی کہ ان کے ناپاک ہاتھ اس پروگرام کے قریب بھی پہنچ سکیں۔قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ حکومت معاشی استحکام کے لیے کوشاں ہے اور اراکین اسمبلی کی کئی تجاویز کو بھی آئندہ مالی سال کے بجٹ میں شامل کیا گیا ہے۔اُُنھوں نے کم از کم ماہانہ اجرت میں اضافے کا اعلان بھی کیا۔ وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تمام وفاقی اداروں میں یکم جولائی 2013ء سے کم از کم اجرت کو آٹھ ہزار روپے سے بڑھا کر 10 ہزار روپے کر دیا جائے گا۔اُنھوں نے عالمی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کی ایک ٹیم کے دورہ پاکستان پر اراکین پارلیمان کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ آئندہ مالی سال کے دوران پاکستان کو تین ارب ڈالر سے زائد کا قرض واپس کرنا ہے۔تاہم اُن کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی اداروں سے رابطوں کے دوران ملکی اور عوامی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا

امن و امان کی بہتری کے لیے صوبوں کو تعاون کی یقین دہانی

وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا کہ اگر مشاورت کے ذریعے صوبائی حکومت ان پر کوئی ذمہ داری عائد کرتی ہے تو وہ اسے قبول کریں گے۔
اسلام آباد- وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ امن و امان برقرار رکھنا صوبوں کی ذمہ داری ہے اور وفاقی حکومت ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے کو تیار ہے۔ہفتہ کو وزیرداخلہ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ سلامتی کے مسائل مشاورت سے ہی حل ہوں گے اور وہ امن و امان کی صورتحال کی بہتری کے بارے میں صوبائی حکومتوں سے مشاورت کے لیے جلد ہی کراچی اور پشاور جائیں گے۔چودھری نثار نے کہا کہ اگر مشاورت کے ذریعے صوبائی حکومت ان پر کوئی ذمہ داری عائد کرتی ہے تو وہ اسے قبول کریں گے۔صوبائی اسمبلی، صوبائی حکومت مجھے اختیار دے تو میں ایک حدود حربے کے ساتھ ان سے مشاورت کے ساتھ، بیٹھ کر جو ذمہ داری یہ مجھ پر لگائیں گے، وزارت داخلہ پر لگائیں گے، حکومت پر اور سکیورٹی ایجنسیز پر لگائیں گے میں وہ ذمہ داری لینے کو تیار ہوں، مگر وہ صوبائی حکومت اور حزب مخالف کی مشاور سے اور سندھ اسمبلی کی منظوری سے ہوسکتا ہے کسی اور طریقے سے نہیں۔کراچی سمیت ملک کے شمال اور جنوب مغربی حصوں میں حالیہ ہفتوں کے دوران تشدد کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔جمعہ کو کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی ساجد قریشی کو ان کے جواں سال بیٹے کے ہمراہ نا معلوم مسلح افراد نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جب کہ ملک کے اس اقتصادی مرکز میں آئے روز ہدف بنا کر قتل کرنے کی وارداتوں میں ایک بار پھر اضافے شہری خوف و ہراس میں مبتلا ہیں۔ادھر خیبر پختونخواہ میں بھی حالیہ ہفتوں میں ہونے والے بم دھماکوں میں دو اراکین صوبائی اسمبلی سمیت درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ اسی ماہ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں دو بم دھماکوں میں اعلیٰ انتظامی عہدیدار اور یونیورسٹی کی طالبات سمیت بھی دو درجن کے قریب لوگ مارے گئے۔وزیرداخلہ نے اس موقع پر اپنے اس بیان کی بھی وضاحت کی کہ انھوں نے امن و امان کی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے سندھ حکومت کو کوئی الٹی میٹم دیا تھا۔چودھری نثار کا کہنا تھا کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا اور انھوں نے ایسا کوئی الٹی میٹم نہیں دیا کیونکہ ان کے بقول انھیں اس کا اختیار حاصل نہیں ہے۔


کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں ہڑتال

ہڑتال کی کال سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے ایک رکن سندھ اسمبلی کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کے طور پر دی تھی اور تین روزہ سوگ کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔
پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں ہفتہ کو ہڑتال کے باعث معمولات زندگی مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔ہڑتال کی کال سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے ایک رکن سندھ اسمبلی کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کے طور پر دی تھی اور تین روزہ سوگ کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔رکن سندھ اسمبلی ساجد قریشی کو کراچی کے علاقے ناظم آباد میں اس وقت نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا جب وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد مسجد سے نکل رہے تھے۔ ائرنگ سے ان کا نوجوان بیٹا وقاص قریشی بھی ہلاک ہو گیا تھا۔ہڑتال کے باعث کراچی میں تمام کاروباری مراکز، بازار اور پٹرول پمپس بند ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ بعض تعلیمی اداروں نے ہفتہ کو ہونے والے امتحانی پرچے بھی ملتوی کردیے ہیں۔سندھ کے دیگر شہروں بشمول حیدرآباد، سکھر، میر پور خاص اور ٹنڈو محمد خان میں بھی ہڑتال کے باعث روز مرہ معمولات متاثر ہوئے ہیں۔مقتولین کی نماز جنازہ ہفتہ کی سہ پہر کراچی میں عزیز آباد کے جناح گراؤنڈ میں ادا کی گئی اور انھیں یاسین 
آباد کے قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا

پاکستان: ایک دن میں سات لاکھ سے زائد پودے لگانے کا ریکارڈ

سورج کی روشنی میں کی جانے والی شجرکاری کی نگرانی کے لیے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے مقامی مبصرین بھی شامل تھے۔پاکستان نے ایک دن میں سب سے زیادہ پودے لگانے عالمی ریکارڈ قائم کر لیا ہے۔یہ ریکارڈ ہفتہ کو سندھ میں ٹھٹھہ کے قریب خروچن کے ساحلی علاقے میں سات لاکھ سے زائد پودے لگا کر قائم کیا گیا۔
اس سے قبل یہ اعزاز بھارت کے پاس تھا جس نے ایک دن میں چھ لاکھ گیارہ ہزار اور 137 پودے لگا کر حاصل کیا تھا۔شجر کاری کی اس مہم میں تین سو رضا کاروں نے حصہ لیا۔یہ مہم ایشیائی ترقیاتی بینک، کوسٹل کمیونٹی ڈویلپمنٹ اور محکمہ جنگلات کے تعاون سے منعقد کی گئی تھی۔سورج کی روشنی میں کی جانے والی شجرکاری کی نگرانی کے لیے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے مقامی مبصرین بھی شامل تھے۔پاکستان میں عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک میں جنگلات کا کل رقبہ نا صرف عالمی معیار سے کم ہے بلکہ مختلف وجوہات خصوصاً غیرقانونی طور پر درختوں کی کٹائی سے ہر سال اس میں لگ بھگ ساٹھ ہزار ایکڑ کی کمی بھی ہو رہی ہے


No comments:

Post a Comment